Skip to main content

Posts

Showing posts from March, 2019

سعادت حسن منٹو

زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزررہے ہیں ، اگر آپ اس سے ناواقف ہیں ،تو میرے افسانے پڑھئے ۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں،وہ اس عہد کی برائیاں ہیں ۔ میری تحریر میں کوئی نقص نہیں ، جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے ، در اصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔‘‘ " سعادت حسن منٹو"

شوہر

مولانا محمد علی جوہر، مولانا ذوالفقار علی خان گوہر اور شوکت علی تین بھائی تھے. شوکت صاحب منجھلے تھے، انھوں نے چوبیس پچیس سال کی عمر میں شادی کر لی. ایک دن ایک تقریب میں اخبار نویسیوں نے مولانا شوکت علی کو گھیر لیا اور ان سے پوچھا کہ آپ کے بڑے بھائی "گوہر" ہیں، اور آپ کے چھوٹے بھائی "جوہر" ہیں. آپ کا کیا تخلص ہے؟ مولانا شوکت علی فورا بولے: "شوہر۔   

اے نئے سال بتا، تُجھ ميں نيا پن کيا ہے

اے نئے سال بتا، تُجھ ميں نيا پن کيا ہے؟ ہر طرف خَلق نے کيوں شور مچا رکھا ہے روشنی دن کی وہي تاروں بھري رات وہی آج ہم کو نظر آتي ہے ہر ايک بات وہی آسمان بدلا ہے افسوس، نا بدلی ہے زميں ايک ہندسے کا بدلنا کوئي جدت تو نہيں اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرينے تيرے کسے معلوم نہيں بارہ مہينے تيرے جنوري، فروري اور مارچ ميں پڑے گي سردي اور اپريل، مئي اور جون ميں ہو گي گرمي تيرا مَن دہر ميں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا اپنی ميعاد بَسر کر کے چلا جائے گا تو نيا ہے تو دکھا صبح نئي، شام نئی ورنہ اِن آنکھوں نے ديکھے ہيں نئے سال کئی بے سبب لوگ ديتے ہيں کيوں مبارک باديں غالبا بھول گئے وقت کی کڑوي ياديں تيری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی فيض نے لکھی ہے يہ نظم نرالے ڈھب کی

تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں

ایک بادشاہ نے چار آدمی طلب کئے ان میں سے ایک عالم تھا ، دوسرا عاشق تھا ، تیسرا نابینا تھا اور چوتھا غریب تھا ، بادشاہ نے ان چاروں سے کہا کہ میرے دماغ میں ایک مصرعہ آیا ہے تم لوگ اسکو مکمل کرو ، مصرعہ یہ ہے: ( اسلئے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں ) چاروں نے تھوڑا سوچ بچار کیا اور اپنے اپنے حساب سے شعر بنائے جو کچھ یوں تھے ۔ عالم : بت پرستی دین احمد میں کبھی آئی نہیں اسلئے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں عاشق : ایک سے جب دو ہوئے پھر لطف یکتائی نہیں اسلئے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں نابینا : ہم میں بینائی نہیں اور اس میں گویائی نہیں اسلئے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں غریب : مانگتے پیسے مصور جیب میں پائی نہیں اسلئے تصویر جاناں ہم نے بنوائی نہیں

ميں سكون چاہتا ہوں

كسى نــے ايك بزرگ ســے كہا "ميرے پاس دنيا جہان كى نعمتيں ہيں مگر مجهــے بــے چينى اور بــے سكونى سى رهتى هـــے" بزرگ نــے پوچها "پهر كيا چاهتــے ہو" وه بولا "ميں سكون چاہتا ہوں" تو بزرگ نــے جواب ديا كہ اپنــے اس جملــے ســے "ميں" نكال دو كيونكــہ يہ فخر و تكبر كى علامت هـــے اور "چاہتا ہوں" بهى نكال دو كيونكــہ يہ نفسانى خواهشات كا نام هـــے. پيچهــے تمہارے پاس صرف "سكون" ہى بچ جاۓ گا اور پهر سكون ہى سكون ہوگا.

ضمیر جعفری - چوبیس برس کی فردِ عمل

چوبیس برس کی فردِ عمل، ہر دل زخمی ہر گھر مقتل اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم قیدی شیرو، زخمی بیٹو! دُکھیا ماؤں! اُجڑی بہنو! ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، ہم تُم سے بہت شرمندہ ہیں اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم ہم حرص و ہوا کے سوداگر، بیچیں کھالیں انسانوں کی بُجھتے رہے روزن آنکھوں کے، بڑھتی رہی ضو ایوانوں کی جلتی راہو! اُٹھتی آہو! گھائل گیتو! بِسمل نغمو! ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم افکار کو ہم نیلام کریں، اقدار کا ہم بیوپار کریں اِن اپنے منافق ہاتھوں سے خود اپنا گریباں تار کریں ٹُوٹے خوابو! کُچلے جذبو! روندی قدرو! مَسلی کلیو! ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے قاتل ہم ہم نادیدے ناشُکروں نے ہر نعمت کا کُفران کیا ایک آدھ سنہری چھت کے لئے، کُل بستی کو ویران کیا سُونی گلیو! خُونی رستو! بچھڑے یارو! ڈُوبے تارو! ہم لوگ جو اب بھی زندہ ہیں، اس جینے پر شرمندہ ہیں اے ارضِ وطن ترے غم کی قسم، ترے دشمن ہم ترے ق

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بینک اکاونٹ

27 Jan 2014 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بینک اکاونٹ کیا آپ کو معلوم ہے کہ سعودی عرب کے ایک بینک میں خلیفہء سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آج بھی کرنٹ اکاونٹ ہے۔یہ جان کر آپ کو حیرت ہو گی کہ مدینہ منورہ کی میونسپلٹی میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر باقاعدہ جائیداد رجسٹرڈ ہے ۔آج بھی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر بجلی اور پانی کا بل آتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ مسجد نبوی کے پاس ایک عالی شان رہائشی ہوٹل زیر تعمیر جس کا نام عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوٹل ہے ؟؟ تفصیل جاننا چاہیں گے ؟؟ یہ وہ عظیم صدقہ جاریہ ہے جو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صدق نیت کا نتیجہ ہے۔ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو وھاں پینے کے صاف پانی کی بڑی قلت تھی۔ ایک یہودی کا کنواں تھا جو مسلمانوں کو پانی مہنگے داموں فروخت کرتا تھا۔ اس کنویں کا نام "بئر رومہ" یعنی رومہ کنواں تھا۔۔ مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی اور اپنی پریشانی سے آگاہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " کون ہے ج

اک تیرے نہ ہونے سے

اک تیرے نہ ہونے سے یوں تو کچھ نہیں ہوتا پھول پھر بھی کھلتے ہیں چاندنی تو آنگن میں آج بھی اترتی ہے میں بھی یوں تو زندہ ہوں سانس بھی چلتی ہے روز و شب گزرتے ہیں عمر ڈھلتی رہتی ہے اک تیرے نہ ہونے سے یوں تو کچھ نہیں ہوتا کچھ کمی سی رہتی ہے آنکھ کے کناروں پر کچھ نمی سی رہتی ہے اک تیرے نہ ہونے سے اور کچھ نہیں ہوتا تشنگی سی رہتی ہے

کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا

مجید امجد نے آج سے تقریباً پچاس سال قبل یہ مشہور زمانہ نظم لکھی تھی۔ جس کا بھونڈا چربہ وصی شاہ نے "کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا" کے عنوان سے تیار کیا ہے۔ فرق محسوس کیجیے۔ کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا رات کو بے خبری میں جو مچل جاتا میں تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ میں جونہی کرتیں تری نرم انگلیاں محسوس مجھے ملتا اس گوش کا پھر گوشہ مانوس مجھے کان سے تو مجھے ہر گز نہ اتارا کرتی تو کبھی میری جدائی نہ گوارا کرتی یوں تری قربت رنگیں کے نشے میں مدہوش عمر بھر رہتا مری جاں میں ترا حلقہ بگوش کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا کلام: مجید امجد

ﻭﻗﺖ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮨﮯ

ﻭﻗﺖ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﮨﮯ __ ﺁﮨﭧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ - ﺁﭖ ﻭﮨﯿﮟ ﮐﮭﮍﮮ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ ﯾﺎ ﺷﺎﯾﺪ ﺁﭖ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺗﮯ ﮬﻮ ... ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮐﮭﮍﺍ ﺭﮨﺘﺎ ﮬﮯ "  - ﺭﺍﮐھ  - ﻣﺴﺘﻨﺼﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﺗﺎﺭﮌ -

منافق

زندگی اور عقیدے میں فاصلہ رکھنے والا انسان منافق ہوتا ہے۔ ایسا شخص نہ گناہ چھوڑتا ہے نہ عبادت۔ اﷲ اُس کی سماجی یا سیاسی مجبوری ہوتا ہے، دینی نہیں۔ ایسے آدمی کے لیے مایوسی اور کربِ مسلسل کا عذاب ہوتا ہے۔ جو بے ضرر ہوگیا ‘ وہ فقیر ہوگیا… اور جو منفعت بخش ہوگیا وہ اللہ کا دوست ہوگیا. واصف علی واصف -

مٹھائی

ایک آدمی نے مٹھائی کی دوکان کھولی اور بورڈ پر لکھوایا۔ “ہماری دوکان سے تمام محلے والے مٹھائی خریدتے ہیں“۔ اگلے دن اس کی دوکان کے سامنے دوسرے آدمی نے بھی مٹھائی کی دوکان کھولی اور بورڈ پر لکھوادیا “ہماری دکان سے شہر بھر کے لوگ مٹھائی خریدتے ہیں“۔ پہلے دکاندار نے پھر نیا بورڈ لگوایا “ہماری دکان سے پورے ضلعے کے لوگ مٹھائی خریدنے آتے ہیں“- اس جملے کے جواب میں سامنے والے نے لکھوایا۔ “ہماری دکان سے پوری ڈویژن کے لوگ مٹھائی خریدتے ہیں“ یہ دیکھ کر پہلے دکاندار نے نیا بورڈ لکھوایا۔ “یہ سامنے والہ میری دکان سے مٹھائی لیکر فروخت کرتا ہے“

بڑے نادان ہوتے تھے

وہ پچھلی بارشوں میں ہم بڑے نادان ہوتے تھے۔۔ سب کی آنکھ سے بچ کر پرانی کاپیوں سے ہم ورق کچھ نوچ لیتے تھے۔۔ ہم اِک کشتی بناتے تھے۔۔ وہ پانی پر چلاتے تھے۔۔ ہمیں لگتا تھـا جـیسے ہم اُسـی کشتی میں بـیٹھے ہیں۔۔ وہ کشتی ڈوب جاتی تھی تو ہـم بھی ڈوب جـاتے تھے۔۔ وہ کشتی پـار لگتی تھی تو ہـم بھی پـار لگتے تھے۔۔ چـلو گزرے ہوئـے کل کے وہ پـل پھر ڈھـونـڈ لاتے ہیں۔۔ پرانی کـاپیـاں لے کر۔۔ نئـی کشتـی بناتـے ہیں۔۔ وہ پانی پر چلاتے ہیں۔۔ چـلو پِھـر پـار لگتـے ہیں۔۔ چـلو پِھـر ڈوب جـاتـے ہیں-

آوازِ دوست

یہ بھلا کہاں ضروری ہے کہ بڑا آدمی تمام عمر بڑا ہی رہے۔ بعض آدمیوں کی زندگی میں بڑائی کا صرف ایک دن آتا ہے اور اس کے ڈھلنے کے بعد ممکن ہے کہ ان کی باقی زندگی اس بڑائی کی نفی میں ہی بسر ہو جائے۔ بدی اور نیکی کے درمیان صرف ایک قدم کا فاصلہ ہے۔ ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں تو ننگِ کائنات، ایک قدم آگے بڑھ جائیں تو اشرف المخلوقات۔ درمیان میں ٹھہر جائیں تو محض ہجومِ آبادی۔ ۔ ۔ - آوازِ دوست-از: مختار مسعود  -

چڑیا گھر

ایک دفعہ میں ایک دوست کے ساتھ چڑیا گھر گیا ۔ بندر کے پنجرے میں دیکھا کہ وہ اپنی بندریا سے چمٹا محبت کی اعلیٰ تفسیر بنا بیٹھا تھا۔ تھوڑا آگے جا کرشیر کے پنجرے کے پاس سے گزر ہوا تو معاملہ الٹ تھا، شیر اپنی شیرنی سے منہ دوسری طرف کیے خاموش بیٹھا تھا۔ میں نے دوست سے کہا کہ بندر کو اپنی مادہ سے کتنا پیار ہے اور یہاں کیسی سرد مہری ہے؟ دوست نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا؛ اپنی خالی بوتل شیرنی کو مارو۔ میں نے بوتل پھینکی تو شیر اچھل کر درمیان میں آگیا۔ شیرنی کے دفاع میں اس کی دھاڑتی ہوئی آواز کسی تفسیر کی طالب نہ تھی۔ میں نے ایک بوتل جا کر بندریا کو بھی ماری یہ دیکھنے کے لیے کہ بندر کا ردعمل کیا ہوتا ہے، بوتل اپنی طرف آتے دیکھ کر بندر اپنی مادہ کو چھوڑ کر اپنی حفاظت کیلئے اچھل کر کونے میں جا بیٹھا۔ میرے دوست نے کہا کہ کچھ لوگ شیر کی طرح ہی ہوتے ہیں؛ ان کی ظاہری حالت پر نہ جانا، ان کے پیاروں پر بن پڑے تو اپنی جان لڑا دیا کرتے ہیں، مگر ان پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ اور کچھ لوگ جو ظاہرا" بہت محبت جتاتے ہیں۔ لیکن وقت آنے پر یوں آنکھیں پھیر لیتے ہیں جیسے کہ جانتے ہی نہ ہوں.

ہماری زبان سے نکلے ہوئے

ہماری زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ہماری شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں . اور یہی الفاظ ہمیں زمین سے بلندیوں پر اور بلندیوں سے زمین کی پستیوں میں گرا دیتے ہیں ...! آپ کا رویہ اور سلجھا ہوا تبصرہ کومنٹ آپ کی سلجھی ہوئی تربیت کو ظاہر کرتا ہے جبکہ غلط (غیر مناسب ، بیہودہ یا گندا ) کومنٹ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ آپ کی تربیت میں کہیں کوئی بہت بڑی کمی رہ گئی ہے !!! اسلئے ہمیشہ سوچ سمجھ کر بولا کریں ! اور اگر اچھے خیالات کی آمد کم ہو تو لفظوں کی فضول خرچی سے بچیں ! بے شک کم بولو مگر اچھا بولو اور اگر کچھ اچھا بولنے کو نہ ہو تو زیادہ بہتر یہ ہے کہ چپ رہا جائے !!!

Jahez

History

اماں کا شف

اماں کا چالیسواں ہوگیا۔چالیسویں کے بعد اماں کے کمرے کو چھیڑا گیا تو ایک بکس پر سب کی آنکھیں ٹک کر رہ گئیں۔ عنایت بھائی نے صفیہ بھابھی کے کہنے پر بکسے کا تالا توڑا اور صفیہ بھابھی کا منہ بن گیا۔ " یہ بھی کوئی بات ہوئی۔۔۔۔۔۔ اتنا بڑا دھوکا۔۔۔ " میں نے تیز نظروں سے انھیں گھورا اور نورالعین بھابھی، شفاعت بھائی کے ساتھ زمین پہ بیٹھ گئیں۔۔۔ شفاعت بھائی چیزیں نکالتے جاتے اور روئے جاتے۔ میرے کھلونے،عنایت بھائی کا پریپ کا بہترین نمبروں سے پاس ہونے کا رزلٹ کارڈ، اجمل بھیا کے اسکول میں ایوارڈ لینے کی تصویر،سلمٰی آپا کی ننھی سی فراک، عائشہ باجی کی چھوٹی سی جوتی، جسے پہن کر وہ پہلا قدم اٹھانے کے قابل ہوئی اور سب سے آخر میں سلمٰی آپا کا تازہ دکھ، ان کی بیوگی کا سفید دوپٹا۔۔۔ بکس خالی ہوگیا اور شفاعت بھیا کے مجسمے میں پہلی بار تحریک ہوئی۔ وہ کچھ نہیں بولے۔ بس روئے جا رہے تھے۔۔ " میرے لیے کچھ نہیں، میرا کچھ بھی نہیں۔۔۔" سعدیہ عزیز آفریدی کے ناولٹ" اماں کا شفو" سے اقتباس

نونہالوں کے معراج صاحب

نونہالوں کے معراج صاحب مسعود احمد برکاتی معراج صاحب کا پورا نام خواجہ محمد عارف تھا، لیکن اپنی کہانیوں پر وہ صرف اپنا قلمی نام "معراج" لکھا کرتے تھے۔ معراج صاحب نے ہمدرد نونہال کے علاوہ بچوں کے کسی رسالے میں کہانیاں نہیں لکھیں۔ وہ ہمدرد نونہال کو دل سے پسند کرتے تھے اور صرف اس کے پڑھنے والے نونہالوں کے لیے کہانیاں لکھتے تھے۔ معراج صاحب نونہالوں کے لیے بہت دلچسپ، مزاحیہ اور سبق آموز کہانیاں لکھا کرتے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، ہمدرد نونہال میں ان کی پہلی کہانی "نوشیرواں کا تخت" جون ١٩٦٦ء میں چھپی تھی۔ اس کے بعد ان کی بےشمار کہانیاں چھپیں۔ نونہال ان کی کہانیاں بڑے شوق اور دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔ ان کی کہانیوں کی زبان آسان اور جملے چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔ ان کا طرزِ تحریر سب سے الگ تھا۔ معراج صاحب نے اپنے بڑے بیٹے "ندیم عارفی" کے نام سے کچھ کہانیاں لکھی تھیں۔ خواجہ محمد عارف کے والد خواجہ محمد حنیف صاحب سرگودھا کے رہنے والے تھے، لیکن معراج صاحب ١٩٤٠ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ١٩٥١ء میں کراچی آئے اور جامعہ کراچی سے ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کر کے ١٩٦٩ء سے ک

انسانی فطرت

یہ انسانی فطرت ہے جو چیز جتنی دور اور ناممکن نظر آتی ہے اس میں کشش بھی اتنی ہی زیادہ نظر آتی ہے۔ فاصلے بہت سی چیزوں کے عیب اور خامیاں چھپا لیتے ہیں۔ جو چیزیں دور سے بہت خوبصورت دکھائی دیتی ہیں ان کے بہت نزدیک جانے پر کچھ بھدّے رنگ بھی دکھائی دینے لگتے ہیں جو دل کو بھاتے نہیں اور ان سے اکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔

خوف

خوف دراصل خواہش سے جنم لینے والی کیفیت ہے جو لوگ دنیا کے پیچھے بھاگتے ہیں ، خوفزدہ رہتے ہیں بانو قدسیہ i don't agree

انتظار کی دھوپ

’’انتظار کی دھوپ میں آدمی دھیرے دھیرے سوکھتا ہے۔ وقت اسے گیلے کپڑے کی طرح ایک دم نہیں نچوڑتا بلکہ آہستہ آہستہ بل دے کر اس کے صبر کو بوند بوند ٹپکاتا رہتا ہے‘‘ --

بات میری کبھی سنی ہی نہیں

بات میری کبھی سنی ہی نہیں جانتے وہ بری بھلی ہی نہیں دل لگی ان کی دل لگی ہی نہیں رنج بھی ہے فقط ہنسی ہی نہیں لطفِ مے تجھ سے کیا کہوں زاہد ہائے کمبخت تُو نے پی ہی نہیں اُڑ گئی یوں وفا زمانے سے کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں جان کیا دوُں کہ جانتا ہوں میں تم نے یہ چیز لے کے دی ہی نہیں ہم تو دشمن کو دوست کر لیتے پر کریں کیا تری خوشی ہی نہیں ہم تری آرزو پہ جیتے ہیں یہ نہیں ہے تو زندگی ہی نہیں دل لگی، دل لگی نہیں ناصح تیرے دل کو ابھی لگی ہی نہیں داغ کیوں تُم کو بے وفا کہتا وہ شکایت کا آدمی ہی نہیں - داغ دہلوی -

تربیت اطفال

تربیت اطفال بچوں سے کبھی کبھی نرمی سے بھی پیش آئیے۔ بچے سوال پوچھیں تو جواب دیجیے مگر اس انداز میں کہ دوبارہ سوال نہ کر سکیں۔اگر زیادہ تنگ کریں تو کہہ دیجیے جب بڑے ہو گے سب پتا چل جائے گا۔ بچوں کو بھوتوں سے ڈراتے رہیے۔شاید وہ بزرگوں کا ادب کرنے لگیں۔ بچوں کو دلچسپ کتابیں مت پڑھنے دیجیے کیونکہ کورس کی کتابیں کافی ہیں۔ اگر بچے بیوقوف ہیں تو پروا نہ کیجیے۔بڑے ہو کر یا تو جینیئس بنیں گے یا اپنے آپ کو جینیئس سمجھنے لگیں گے۔ بچے کو سب کے سامنے مت ڈانٹئے۔اس کے تحت الشعور پر برا اثر پڑے گا۔ایک طرف لے جا کر تنہائی میں اس کی خوب تواضع کیجیے۔ بچوں کو پالتے وقت احتیاط کیجیے کہ ضرورت سے زیادہ نہ پل جائیں،ورنہ وہ بہت موٹے ہو جائیں گے اور والدین اور پبلک کے لیے خطرے کا باعث ہوں گے۔ اگر بچے ضد کرتے ہیں تو آپ بھی ضد کرنا شروع کر دیجیے۔ وہ شرمندہ ہو جائیں گے۔ ماہرین کا اصرار ہے کہ موزوں تربیت کے لیے بچوں کا تجزیۂ نفسی کرانا ضروری ہے۔لیکن اس سے پہلے والدین اور ماہرین کا تجزیۂ نفسی کرا لینا زیادہ مناسب ہو گا۔دیکھا گیا ہے کہ کنبے میں صرف دو تین بچے ہوں تو وہ لاڈلے بنا دئیے جاتے ہیں لہذا بچے صرف دس

بیٹیاں

وہ بیٹیاں کبھی سسرال میں سر اٹھا کر نہیں جی سکتیں ، جن کے گھر سے کبھی عیدی نہ آۓ ، وہ بیٹیاں کبھی دل سے خوش نہیں ہوسکتیں جن کے گھر والے کبھی ... ان کو فون نہ کریں وہ بیٹیاں عزت کی مستحق کیسے ہو سکتی ہیں جن کے گھر والے ... انہیں جیتے جی بھول جائیں ، سر پہ سائبان نہ ہو تو دھوپ تو جلاتی ہے ناں !!! کہاں ، کہاں ، کیسی کیسی حسرتیں جمع ہوجاتی ہیں ، بین کرتی ، شور مچاتی ، کوئ اونچا بولے تو دل سہم جاتا ہے ، کوئ زور سے پکارے تو دل دھڑک جاتا ہے ، کوئ ذیادتی کرے تو سہنا پڑتی ہے ، کیونکہ وہ کاندھا کہاں ہے جس پر سر رکھ کر چیخ چیخ کر رویا جاۓ ، بہت سے آنسو ، سارے ہی آنسو اور اندر ہی اندر قطرہ قطرہ گرتے آنسو ، دل کو زنگ لگا دیتے ہیں کوئ مہربان آغوش وا نہیں ہوتی ۔ " —

The circle of Islam

سعادت حسن منٹو

وہ شخص جو اپنے احساسات کو کسی شکل میں پیش کرکے دوسرے ذہن پر منتقل کرسکتا ہے وہ دراصل اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی قدرت کا مالک ہے۔ اور وہ شخص جو محسوس کرتا ہے مگر اپنے احساس کو خود آپ اچھی طرح نہیں سمجھتا اور پھر اس اضطراب کو بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اس شخص کے مرادف ہے جو اپنے حلق میں ٹھنسی ہوئی چیز کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہا ہے مگر وہ گلے سے نیچے اترتی جارہی ہو۔۔۔۔۔۔یہ ایک ذہنی عذاب ہے جسکی تفصیل لفظوں میں نہیں آسکتی۔ -- سعادت حسن منٹو --

اک چھوٹا سا لڑکا تھا ميں جن دنوں

اک چھوٹا سا لڑکا تھا ميں جن دنوں اک ميلے ميں پہنچا ہمکتا ہوا جی مچلتا تھا ہر اک شے پہ مگر جيب خالی تھی کچھ مول لے نہ سکا لوٹ آيا ليۓ حسرتیں سيکڑوں اک چھوٹا سا لڑکا تھا ميں جن دنوں خير محروميوں کے وہ دن تو گۓ آج ميلا لگا ہے اسی شان سے آج چاہوں تو ساری دکاں مول لوں آج چاہوں تو سارا جہاں مول لوں نارسائ کا جی ميں دھڑکا کہاں پر وہ چھوٹا سا الہڑ سا لڑکا کہاں -- ابنِ انشاء --

داستان ایمان فروشوں کی

صرف دو چیزوں سے بچو میرے عزیز رفیقو! سلطان ایوبی نے کہا،"مایوسی اور ذہنی عیاشی ـ انسان پہلے مایوس ہوتا ہے پھر ذہنی عیاشی کے ذریعے راہ فرار اختیار کرتا ہے ـ" ("داستان ایمان فروشوں کی")

نہ حریف جاں نہ شریک غم شب انتظار کوئی تو ہو

نہ حریف جاں نہ شریک غم شب انتظار کوئی تو ہو کسے بزم شوق میں لائیں ہم دل بے قرار کوئی تو ہو کسے زندگی ہے عزیز اب، کسے آرزوئے شب طرب مگر اے نگار وفا طلب ترا اعتبار کوئی تو ہو کہیں تار دامن گل ملے تو یہ مان لیں کہ چمن کھلے کہ نشان فصل بہار کا سر شاخسار کوئی تو ہو یہ اداس اداس سے بام و در یہ اجاڑ اجاڑ سی رہگزر چلو ہم نہیں نہ سہی مگر سر کوئے یار کوئی تو ہو یہ سکون جاں کی گھڑی ڈھلے تو چراغ دل ہی نہ بجھ چلے وہ بلا سے ہو غم عشق یا غم روزگار کوئی تو ہو سر مقتل شب آرزو رہے کچھ تو عشق کی آبرو جو نہیں عدد تو فراز تو کہ نصیب دار کوئی تو ہو   احمد فراز 

Phd Woman

ﺑﺮﯼ ﻋﺎﺩﺕ

ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺑﺮﯼ ﻋﺎﺩﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﯾﮧ ﺑﺮﯼ ﻋﺎﺩﺕ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻄﻠﺐ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻣﺎﻍ ﮐﻮ ﺗﺎﻻ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﭼﺎﺑﯽ ﻧﮕﻞ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭﯼ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﭘﮭﺮ ﭼﺎﮨﮯ ﻭﮦ ﺳﻤﺠﮭﻨﺎ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﮐﺘﻨﺎ ﮨﯽ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﮨﻮ، ﮨﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ "انا" ﮐﻮ ﺷﮑﺴﺖ ﻧﮧ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﻤﺎﺭﯼ "ﺍﻧﺎ" ﺑﻌﺾ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﭘﺮ ﮨﻮ ﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ۔

اس شہرِ سنگ دل کو جلا دینا چاہیے​

اس شہرِ سنگ  دل  کو  جلا  دینا  چاہیے​ پھر اس کی خاک کو بھی اُڑا دینا چاہیے​ ​ ملتی  نہیں  پناہ  ہمیں  جس  زمین  پر​ اک حشر اس زمیں پہ اٹھا دینا چاہیے​ ​ حد سے گزر گئی ہے یہاں رسمِ  قاہری​ اس دہر کو اب اس کی سزا دینا چاہیے​ ​ اک تیز رعد  جیسی  صدا  ہر  مکان   میں​ لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے​ ​ گُم ہو چلے ہو تم تو بہت خود میں اے منیر​ دنیا    کو   کچھ   تو   اپنا   پتا   دینا  چاہیے​

مرد کالا - عورت سفید

مرد کالا رنگ ہے جس میں سب "رنگ" آ کر ایک ہو جاتے ہیں عورت سفید رنگ ہے ـ جس میں جو رنگ ڈالا جائے یہ اسی رنگ میں ڈھل جاتی ہے ـ

میں نے دل سے کہا

میں نے دل سے کہا ، اے دیوانے بتا جب سے کوئی ملا تو ہے کھویا ہوا یہ کہانی ہے کیا ، ہے یہ کیا سلسلہ اے دیوانے بتا میں نے دل سے کہا میں نے دل سے کہا، اے دیوانے بتا دھڑکنوں میں چھپی کیسی آواز ہے کیسا یہ گیت ہے کیسا یہ ساز ہے کیسی یہ بات ہے کیسا یہ راز ہے میرے دل نے کہا ، میرے دل نے کہا جب سے کوئی ملا ،چاند تارے فضا ،پھول بھنورے ہوا یہ حسین وادیاں ،نیلا یہ آسمان ،سب ہے جیسے نیا میں نے دل سے کہا، مجھ کو یہ تو بتا جو ہے تجھ کو ملا اس میں کیا بات ہے، کیا ہے جادوگری ,کون ہے وہ پری اے دیوانے بتا ،میرے دل نے کہا  ، نہ وہ کوئی پری، نہ کوئی مہجبیں نہ وہ دنیا میں سب سے ہے زیادہ حسین، سیدھی سادھی سی ہے، بھولی بھالی سی ہے لیکن اس میں ادا ،ایک نرالی سی ہے ،اسکے بن میرا جینا ہی بیکار ہے میں نے دل سے کہا ،بات اتنی سی ہے ،کہ تجھے پیار ہے میرے دل نے کہا ،مجھکو اقرار ہے! ہاں مجھے پیار ہے ۔ہاں مجھے پیار ہے۔

face mask

خدا اور محبت

محبت میں پا لینے کی پیاس سب سے زیادہ مشکل ہوتی ہے، کیوں کہ جب آب حیات کا دریا سامنے بہہ رہا ہو تو کون ہو گا جو صرف ایک دو گھونٹ پر اکتفا کرے گا ؟ پا لینے کی پیاس جدائی کی پیاس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے اور اگر یہ پیاس لگ جاتے تو ملن جدائی سے زیادہ اذیت ناک بن جاتا ہے، لیکن افسوس ہماری یہ محدود زندگی کبھی ہمیں اس دریا سے پوری طرح سیراب نہیں ہونے دیتی۔ ہم ابھی چند گھونٹ ہی حلق سے اتار پاتے ہیں کہ جانے کا وقت آ جاتا ہے۔ خدا اور محبت

دشمن کا فریب

دشمن کا فریب - مقصود احمد ظفر ایک بوڑھا سانپ جس میں چلنے پھرنے طاقت نہیں رہی تھی ایک جھیل کے قریب آہستہ آہستہ آ کر بیٹھ گیا۔ وہ بڑا پریشان اور غمگین دکھائی دے رہا تھا۔ مینڈکوں کے بادشاہ نے اسے دیکھا تو پوچھا کہ تجھے کیا ہوا؟ اتنا دلگیر کیوں ہے؟ سانپ نے جواب دیا، "بھائی تجھے کیا؟ میں اپنی پریشانی تجھے بتا نہیں سکتا۔"مینڈک نے کہا، "اگر تیری کوئی چیز جھیل میں گر پڑی ہے تو بتا۔ میں اپنے لشکر کو حکم دوں گا اور وہ تیری چیز کو ڈھونڈ لائیں گے۔" سانپ نے کہا، "اے مینڈکوں کے بادشاہ! اس شہر کے سیٹھ کا ایک بہت خوبصورت لڑکا تھا۔ میں نے اسے ڈس لیا اور وہ مر گیا۔ سیٹھ نے اپنے بیٹے کے غم میں کھانا پینا چھوڑ دیا اور لوگوں سے کہنے لگا کہ میں اب گاؤں میں نہیں رہوں گا۔ میرا ایک ہی لڑکا تھا۔ میرا اب اس بستی میں کون ہے؟ میں بن باس لے لوں گا۔ یہ کہہ کر وہ خوب دھاڑیں مار مار کر رویا۔ اے مینڈک! میں نے اسی وقت دیکھا کہ ایک بزرگ مجھ سے یوں کہتے ہیں کہ تو نے ہی اس سیٹھ کے لڑکے کو کاٹا ہے۔ قیامت کے دن تیری پیٹھ پر مینڈک سوار ہوں گے اور اللہ تجھے ہمیشہ اسی عذاب میں مبتلا رکھے گا۔ اگر تو

"ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ"

ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﺐ ﻣﺰﺍﺝ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ "ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ"

ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺷﯿﺸﮧ ﺑﻦ ﮐﺮﺭﮨﻨﺎ

ﺍﯾﮏ شخص ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﯿﺸﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﺮﮐﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ.. "ﺑﯿﭩﺎ ! ﺍﺱ ﺷﯿﺸﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﻧﻈﺮ ﺁﺭﮨﺎ ﮨﮯ..؟؟ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ.. "ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ ! ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﻟﻮﮒ ﻧﻈﺮﺁ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ.." ﭘﮭﺮ ﺑﺎﭖ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺁﺋﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭﭘﻮﭼﮭﺎ.. "ﺍﺏ ﮐﯿﺎ ﻧﻈﺮ ﺁﺭﮨﺎ ﮨﮯ..؟؟ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ.. "ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ ! ﺍﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﻧﻈﺮ ﺁﺭﮨﺎ ﮨﮯ.." ﺑﺎﭖ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ.. "ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺑﯿﭩﮯ ! ﯾﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﯽ ﺷﯿﺸﮯ ﮨﯿﮟ.. ﺍﯾﮏ ﭘﺮ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﮐﺎ ﻣﻠﻤﻊ ﭼﮍﮬﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺁﭖ ﻧﻈﺮ ﺁﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﭘﺮ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮍﮬﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﻟﻮﮒ ﻧﻈﺮ ﺁﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ.. ﺑﻠﮑﻞ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺻﺮﻑ ﺷﯿﺸﮧ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺭﮨﻮ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻟﻮﮒ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﮯ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﭘﺮ ﺳﻮﻧﮯ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﮐﺎ ﻣﻠﻤﻊ ﭼﮍﮬﺎ ﻟﻮ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﺋﯿﻨﮧ ﺑﻦ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻟﻮﮒ ﻧﻈﺮ ﺁﻧﺎ ﺑﻨﺪ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ' ﺻﺮﻑ ﺍﭘﻨﺎ ﺁﭖ ﮨﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﺎ ﺁﭖ ﻧﻈﺮ ﺁﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﮑﺒﺮ ﺑﮍﮬﺘﺎ ﮨﮯ.. ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺷﯿﺸﮧ ﺑﻦ ﮐﺮﺭﮨﻨﺎ ﺗﺎﮐﮧ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﮐﮫ ﺩﺭﺩ' ﻏﻢ ﺍﻭﺭ ﺗﮑﻠﯿﻔﯿﮟ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﯽ ﺭﮨﯿﮟ.."

میں سال کا آخری سورج ہوں

میں سال کا آخری سورج ہوں میں سب کے سامنے ڈوب چلا کوئی کہتا ہے میں چل نہ سکا کوئی کہتا ہے کیا خْوب چلا میں سب کے سامنے ڈوب چلا اس رخصتِ عالم میں مجھ کو اک لمحہ رخصت مل نہ سکی جس شب کو ڈھونڈنے نکلا تھا اس شب کی چاہت مل نہ سکی یہ سال کہاں، اک سال کا تھا یہ سال تو اک جنجال کا تھا یہ زیست جو اک اک پَل کی ہے یہ اک اک پَل سے بنتی ہے سب اک اک پَل میں جیتے ہیں اور اک اک پَل میں مرتے ہیں یہ پَل ہے میرے مرنے کا میں سب کے سامنے ڈوب چلا اے شام مجھے تْو رخصت کر تْو اپنی حد میں رہ لیکن دروازے تک تو چھوڑ مجھے وہ صبح جو کل کو آئے گی اک نئی حقیقت لائے گی تْو اْس کے لئے، وہ تیرے لئے اے شا،م! تْو اتنا جانتی ہے اک صبحِ امید ، آثار میں ہے اک در تیری دیوار میں ہے اک صبحِ قیامت آنے تک بس میرے لیے بس میرے لیے یہ وقت ہی وقتِ قیامت ہے اب آگے لمبی رخصت ہے اے شام جو شمعیں جلاؤ تم اک وعدہ کرو ان شمعوں سے جو سورج کل کو آئے یہاں وہ آپ نہ پَل پَل جیتا ہو وہ آپ نہ پَل پَل مرتا ہو وہ پْورے سال کا سورج ہو اے شام مجھے تو رخصت کر!

نادان بکری

نادان بکری اتفاق سے ایک لومڑی ایک کنویں میں گر پڑی۔ اس نے بہت ہاتھ پیر مارے اور باہر نکلنے کی ہر طرح کوشش کی، لیکن کامیاب نہیں ہوئی۔ ابھی وہ کوشش کر ہی رہی تھی کہ اتنے میں ایک بکری پانی پینے کے لیے وہاں آ نکلی۔ بکری نے لومڑی سے پوچھا، "اے بہن! یہ بتاؤ کہ پانی کیسا ہے؟" لومڑی نے جواب دیا، "پانی بہت ہی اچھا ہے۔۔۔۔۔ ایسا میٹھا اور ٹھنڈا پانی میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں پیا۔ میں نے خود اتنا پی لیا ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں بیمار نہ پڑ جاؤں۔" یہ سن کر پیاسی بکری نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، جھٹ سے کنویں میں کود گئی۔ موقع غنیمت جان کر لومڑی پھرتی سے، بکری کے سینگوں کا سہارا لے کر کنویں سے باہر آگئی اور بکری۔۔۔۔ بکری وہیں رہ گئی۔۔۔ ماہ نامہ ہمدرد نونہال، جولائی ۱۹۹۵ سے لیا گیا۔ - ڈاکٹر جمیل جالبی -

سنہری ادوار

ایک روز امیرالمومنین متوکل رحمہ اللہ نے کسی پرندے کو نشانہ باندھ کر تیر مارا لیکن تیر خالی گیا، ایک عرب نے دیکھا تو کہا : "سبحان اللہ" خلیفہ نے مڑ کر دیکھا اور کہا.... "کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ نے جھوٹی تعریف کی ممانعت کی ہے" عرب نے جواب دیا : "میں نے آپ کی نہیں بچانے والے کی تعریف کی ہے" ماخوذ  - سنہری ادوار

ﺣﺴﺎﺱ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺎ ﭘﺮﺳﺖ

ﺟﺲ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ! ﻭﮦ ﺩﻝ ﺑﮍﮮ ﺣﺴﺎﺱ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺎ ﭘﺮﺳﺖ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﮯ ﺩﻝ ﭘﺮ ﺟﺐ ﺿﺮﺏ ﭘﮍﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺧﻮﺩ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﻭﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺗﻮﮌ ﭘﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔

پطرس بخاری

پطرس بخاری پطرس بخاری ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر تھے ایک مرتبہ مولانا ظفر علی خان صاحب کو تقریر کے لئے بلایا تقریر کی ریکارڈنگ کے بعد مولانا پطرس کے دفتر میں آ کر بیٹھ گئے۔ بات شروع کرنے کی غرض سے اچانک مولانا نے پوچھا۔ پطرس یہ تانپورے اور تنبورے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ پطرس نے ایک لمحہ سوچا اور پھر بولے۔ مولانا آپ کی عمر کیا ہوگی؟ اس پر مولانا گڑ بڑا گئے اور بولے۔ بھئی یہی کوئی پچھتر سال ہوگی۔ پطرس کہنے لگے۔ مولانا جب آپ نے پچھتر سال یہ فرق جانے بغیر گذار دئے تو دو چار سال اور گذار لیجئے

اسد اللہ خان غالب

آج مرزا اسد اللہ خان غالب کا یوم وفات ہے آج کے دن کچھ تحاریر انہی کے نام ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

آرزو

آرزو آرزو کا پیدا ہونا فطری بات ہے، انسانوں میں آرزوئیں پیدا ہوتی ہی رہتی ہیں، کوئی آرزو شکست آرزو تک سفر کرتی ہے، کوئی آرزو انسان کو بے نیاز آرزو کر دیتی ہے، کوئی آرزو اس کو روبرو لاتی ہے اور کبھی کوئی آرزو اس کو خوش قسمتی سے سرخرو کر دیتی ہے۔ کونسی آرزو کیا کرتی ہے انسان کو اس کا علم ہونا چاہیے، ورنہ آرزو جگر کا لہو بن کر خون کا آنسو بنے گی۔ از واصف علی واصف کرن کرن سورج صفحہ 4

فاصلے

جب آدمی اپنی غلطیوں کاخود وکیل،اوردوسروں کی کوتاہیوںکاخود منصف ھو،تو پھر فیصلے نہیں بلکہ "فاصلے" جنم لیتے ہیں.

ہارون الرشید مع وزیر کے جنگل کی سیر کو چلے

18 Feb 2015 ایک دفعہ ہارون الرشید مع وزیر کے جنگل کی سیر کو چلے‘ ایک بوڑھے کو دیکھا کہ باغ میں گٹھلیاں بورہا ہے۔ خلیفہ نے وزیر سے کہا کہ اس سے پوچھو کیا بورہا ہے۔ جب وزیر نے پوچھا تو اس نے کہا کہ کھجور کی گٹھلیاں بورہا ہوں‘ خلیفہ نے پوچھا کہ یہ کتنے برس میں پھل لے آئیں گے۔ بوڑھے نے کہا کہ بیس پچیس سال کے بعد۔ خلیفہ ہنسا کہ بوڑھے میاں کے پیر قبر میں لٹک رہے ہیں اور بیس پچیس سال آئندہ کا سامان کررہے ہیں۔ وزیر نے یہ بات بوڑھے سے کہی تو وہ کہنے لگا کہ اگر سب باغ لگانے والے یہی سوچا کرتے جو تم سوچتے ہو تو آج تم کو ایک کھجور بھی نصیب نہ ہوتی۔ میاں! دنیا کا کام یوں ہی چلتا ہے کہ کوئی لگاتا ہے‘ کوئی کھاتا ہے۔ خلیفہ نے یہ معقول جواب سن کر کہا نَعَم”بے شک صحیح ہے“ اور ہارون رشید کا یہ قاعدہ تھا کہ جس شخص کی بات پر نَعَم کہہ دیں اس کو ایک ہزار دینار دئیے جائیں۔ چنانچہ وزیر نے اس وقت ایک ہزار دینار کا توڑا اس کے حوالے کیا۔ اس کے بعد دونوں آگے چلنے لگے۔ تو بوڑھے نے کہا کہ میری ایک بات سنتے جائو وزیر نے کہا کہو کیا بات ہے؟ بوڑھے نے کہا کہ کسی کا بیج تو بیس پچیس سال میں پھل لاتا ہے لیکن میری بیج نے

الفاظ کے جھوٹے بندھن میں

الفاظ کے جھوٹے بندھن میں راز کے گہرے پردوں میں ہر شخص محبت کرتا ہے حالانکہ محبت کچھ بھی نہیں سب جھوٹے رشتے ناتے ہیں سب دل رکھنے کی باتیں ہیں سب اصلی روپ چھپاتے ہیں احساس سے خالی لوگ یہاں لفظوں کے تیر چلاتے ہیں ایک بار نظروں میں آکر وہ پھر ساری عمر رلاتے ہیں یہ عشق محبت مہر و وفا یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہر شخص خودی کی مستی میں بس اپنی خاطر جیتا ہے بس اپنی خاطر جیتا ہے

Learn Persian Language

translation needs Attention

ﻣﺎﺣﻮﻝ ﮐﯽ ﮐﮍﻭﺍﮨﭧ

ﻣﺎﺣﻮﻝ ﮐﯽ ﮐﮍﻭﺍﮨﭧ ﺟﺐ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺧﻮﻥ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺑﺨﻮﺩ ﻟﮩﺠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﭩﮭﺎﺱ ﮐﻢ ہو ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔

مزدور

5 May 2015 یہاں مزدور کو مرنے کی جلدی یوں بھی ہے محسن کہ زندگی کی کشمکش میں کفن مہنگا نہ ہو جائے

پھل نہ درخت کے ڈالے کو لگتا ہے

پھل نہ درخت کے ڈالے کو لگتا ہے نہ اس کے مضبوط تنے کو ۔ پھل جب بھی لگتا ہے لرزنے والی شاخ کو لگتا ہے، اورجہاں بھی لگتا ہے کانپتی ہوئی ڈالی کو لگتا ہے ۔ جس قدر شاخ رکوع میں جانے والی ہوگی اسی قدر پھل کی زیادہ حامل ہوگی ۔ اور فائدہ درخت کو اس کا یہ کہ ، پھل کی وجہ سے ڈالا بھی کلہاڑے سے محفوظ رہتا ہے اور تنا بھی ۔ درخت کی بھی عزت ہوتی ہے اور درخت کی وجہ سے سارا باغ بھی عزت دار بن جاتا ہے

تاجر اور بندر - ﺍﺳﭩﺎﮎ ﻣﺎﺭﮐﯿﭧ

تاجر اور بندر ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﮔﺎﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﯿﺎ ﺷﺨﺺ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮﻭﺍﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺩﯾﮩﺎﺗﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﻨﺪﺭ 10 ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﺮﯾﺪﮮ ﮔﺎ۔ ﺍﺱ ﮔﺎﻭﮞ ﮐﮯ ﺍﺭﺩﮔﺮﺩ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﻨﺪﺭ ﺗﮭﮯ ، ﺳﻮ ﺩﯾﮩﺎﺗﯽ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺋﮯ ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺎﻝ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ، ﮐﯿﻠﮯ ﺭﺳﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﺮ ﮐﺌﯽ ﻃﺮﯾﻘﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﻨﺪﺭ ﭘﮑﮍﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺌﮯ ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮨﺰﺍﺭ ﺑﻨﺪﺭ 10 ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﺮﯾﺪﮮ ، ﺍﺏ ﺑﻨﺪﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﮐﺎﻓﯽ ﮐﻢ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ، ﭼﻨﺪ ﺍﯾﮏ ﺑﻨﺪﺭ ﺑﺎﻗﯽ ﺗﮭﮯ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﭘﮑﮍﻧﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﯾﻮﮞ ﺳﻤﺠﮭﯿﮟ ﺍﻧﺪﮬﺎ ﺩﮬﻨﺪ ﻓﺎﺋﺮﻧﮓ ﻭﺍﻻ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﺍﻭﺭ ﭨﺎﺭﮔﭩﮉ ﺁﭘﺮﯾﺸﻦ ﮐﯽ ﻧﻮﺑﺖ ﺁ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺑﻨﺪﺭ 20 ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﺮﯾﺪﮮ ﮔﺎ ، ﺍﺱ ﺳﮯ ﺩﯾﮩﺎﺗﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﯿﺎ ﺟﺰﺑﮧ ﻧﯿﺎ ﻭﻟﻮﻟﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﻗﻮﺕ ﺳﮯ ﺑﻨﺪﺭ ﭘﮑﮍﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺌﮯ ﭼﻨﺪ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﺑﻨﺪﺭ ﺍﮐﺎ ﺩﮐﺎ ﮨﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﺌﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﺎﺟﺮ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﮮ ﭘﻨﺠﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ 1300 ﺑﻨﺪﺭ ﺟﻤﻊ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﺟﺐ ﺗﺎﺟﺮ ﻧﮯ ﺑﻨﺪﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺧﺮﯾﺪﺍﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺳﺴﺘﯽ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻓﯽ ﺑﻨﺪﺭ ﻗﯿﻤﺖ ﭘﮩﻠﮯ 25 ﺭﻭﭘﮯ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﻗﯿﻤﺖ 50 ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺮ ﺩﯼ۔ ﺍﺱ ﻗﯿﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺻﺮﻑ 9 ﺑﻨﺪﺭ ﺧﺮﯾﺪﮮ ۔۔ ﺍﺏ ﺟﻮ ﺑﻨﺪﺭ ﺑﮭﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺯﺩ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ

حکایتِ رومی

مولانا رومی رحمتہ اللّہ علیہ فرماتے ہیں... حضرت موسیٰ علیہ السّلام بعثت سے قبل حضرت شعیب علیہ السّلام کی بکریاں چراتے تھے... اور ایک دن آپ علیہ السّلام حسبِ معمول بکریاں چرا رہے تھے کہ ایک بکری ریوڑ سے جُدا ہو گئی۔ . آپ علیہ السّلام اس کی تلاش میں جنگل میں چلے گئے اور بکری کو تلاش کرتے کرتے آپ علیہ السّلام کے پاؤں مبارک زخمی ہو گئے جب وہ بکری تھک ہار کر رُک گئی تو آپ علیہ السّلام نے اسے پکڑا اور اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ . حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی جگہ کوئی دوسرا چرواہا ہوتا تو وہ یقیناً بکری کو مارنے لگتا کہ اس نے اسے زخمی کر دیا۔ مگر آپ علیہ السّلام اسے پیار کرتے جاتے اور فرماتے جاتے اے بکری مجھ سے کیا غلطی ہو گئی کہ تُو مُجھ سے یوں بھاگی...؟ اگر تُو مُجھ سے ناراض تھی تو پھر تُو خود کو کیوں پریشان کرتی ہے...؟ تُو نے میری حالت پر رحم نہیں کِیا تو اپنی حالت پر تو رحم کرتی۔ . اللّہ ربّ العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی اِس شفقت پر ملائکہ سے فرمایا... نبوّت کے حقدار یہ لوگ ہیں اور قوم کا غم خوار وہ ہے جو تکلیف ملنے پر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ . حضو

خاموشی

خاموشی کبھی کبھی ہمارے ارد گرد خاموشی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ پھر وہ ہم سے باتیں کرنے لگتی ہے۔۔ عجیب بات ہے نا، خاموشی اور بات چیت تو دو بر خلاف پہلوں ہیں، پھر یہ ایک کیسے ہو جاتی ہیں؟ خاموشی محوِ گفتگو کیسے ہو جاتی ہے۔

کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر

کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر باغِ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر روزِ حساب جب میرا پیش ہو دفتر عمل آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک  -  اقبال

دعاؤں میں یاد رکھنا

مجھے کسی سے بھلائی کی اب کوئی توقع نہیں ہے تابش میں عادتا سب سے کہہ رہا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا - عباس تابش

جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا

جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا ہم نے تو جب کلیاں‌مانگیں، کانٹوں‌کا ہار ملا خوشیوں‌کی منزل ڈھونڈی تو غم کی گرد ملی چاہت کے نغمے چاہے تو آہِ سرد ملی دل کے بوجھ کو دونا کر گیا جو غم خوار ملا بچھڑ گیا ہر ساتھی دے کر پل دو پل کا ساتھ کس کو فرصت ہے جو تھامے دیوانوں کا ہاتھ ہم کو اپنا سایہ تک اکثر بیزار ملا اس کو ہی جینا کہتے ہیں تو یوں ہی جی لیں گے اُف نہ کریں‌گے، لب سی لیں‌گے، آنسو پی لیں‌گے - ساحر لدھیانوی

خوشیاں اور کامیابیاں

خوشیاں اور کامیابیاں اگر دائمی قائمی ہوں تو پھر شاید انسان انسان کی صورت میں زندہ ہی نہ رہ سکے - دکھ سکھ ، کامیابیاں ، ناکامیاں ، محبت نفرت اور جینے مرنے کے تغیر ہی تو اسے استحکام دیتے ہیں - اس کے ارادے مضبوط اور حوصلہ فراخ کرتے ہیں - تدبیر اور تقدیر کے فلسفے کو سمجھنے میں ممد ثابت ہوتے ہیں - اس کے لیئے راہوں اور منزل کا تعین کرتے ہیں

مفلس کون ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ لوگوں نے کہا’’ مفلس ہمارے یہاں وہ شخص کہلاتا ہے جس کے پاس نہ درہم ہو اور نہ کوئی سامان ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کا مفلس اور دیوالیہ وہ ہے جو قیامت کے دن اپنی نماز،روزہ اور زکوٰۃ کے ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہوگا اور اسی کے ساتھ اس نے دنیا میں________________ کسی کو گالی دی ہوگی،کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کو قتل کیا ہوگا، کسی کو ناحق مارا ہوگا ____________تو ان تمام مظلوموں میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی پھر اگر اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور مظلوم کے حقوق باقی رہے تو ان کی غلطیاں اس کے حساب میں ڈال دی جائیں گی اور پھر اسے جہنم میں گھسیٹ کر پھینک دیا جائے گا ( حضرت ابو ہریرہ رضہ مسلم )

خیانت کئے بغیر

آپس میں بات چیت کی زحمت کئے بغیر بس چل رہے ہیں ساتھ، شکایت کئے بغیر آنکھوں سے کر رہے ہیں بیاں اپنی کیفیت ہونٹوں سے حالِ دل کی وضاحت کئے بغیر دونوں کو اپنی اپنی انائیں عزیز ہیں لیکن کسی کو نذرِ ملامت کئے بغیر ٹھہرا ہوا ہے وقت مراسم کے درمیاں پیدا خلیج میں کوئی وسعت کئے بغیر حیران ہیں کہ اتنے برس کیسے کٹ گئے رسمی سا کوئی عہدِ رفاقت کئے بغیر وہ جا نہیں چکا ہے مگر اس کے باوجود تنہا کھڑے ہیں ہم اُسے رخصت کئے بغیر چارہ گروں سے دونوں کو پڑتا ہے واسطہ لیکن کِسی کے حق میں خیانت کئے بغیر

سال اچھا گزرے

او  دوا  کریں . یہ سال اچھا گزرے.

کھیل بچپن کا

کھیل بچپن کا  ایک کھیل جو ہم نہ بچپن میں بہت کھیلی ہے - اسکول میں گھر پر ، دوستوں کے ساتھ ، آپس میں گھر پر - اس میں پانچ مستطیل خانے زمین پر بنائے جاتے ہیں جن میں سے تیسرے اور پانچویں خانے کے درمیان میں لائن لگا کر دو خانوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ پھر پتھر کی ایک ٹھکری پکڑ کر خانوں میں بالترتیب پھینک کر کچھ اسطرح کھیل کھیلا جاتا ہے کہ ایک ٹانگ سے اُچھلتے ہوئے جاکر اُس ٹھکری کو اُٹھانا ہوتا ہے۔ بس اگر اس دوران لائن پر پاؤں آ گیا تو باری ختم۔

ڈرتا ہوں

نہیں ڈرتا میں کانٹوں سے  ،  مگر  پھولوں سے ڈرتا ہوں چبھن دے جائے جو دل کو ، میں ان باتوں سے ڈرتا ہوں انا   کا   میں نہیں قائل  ،   محبّت   ہے   مجھے سب   سے جو دل میں بغض رکھتے ہیں ، میں ان اپنوں سے ڈرتا ہوں مجھے   تو   نیند   بھی   اچھی   نہیں   لگتی   حقیقت میں دکھائیں خواب جو جھوٹے ، میں ان نیندوں سے ڈرتا ہوں مجھے  احساس  ہے  سب کا ،  میں سب کے کام آتا ہوں مگر جو کینہ رکھتے ہیں ، میں ان رشتوں سے ڈرتا ہوں میں  بندا  ہوں  الله  کا  ،  الله  کا  خوف  ہے  مجھ  کو جو ڈرتے نہیں رب سے ، میں ان بندوں سے ڈرتا ہوں

مرد اور عورت

مرد  اور  عورت مرد کے دل میں دوسری عورت کی ، اور عورت کی الماری میں نئے سوٹ کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔

احمقوں کو نصیحت

احمقوں کو نصیحت کرنا ، شہد کی مکھیوں کو چھیڑنے کے برابر ہےـ

نا امید انسان

12 Jan 2016 انسان جب نا امید ہو جاتا ہے تو زبان درازی کرنے لگتا ہے، عاجز آ کر بلی کتے پر حملہ کر دیتی ہے۔ - حکایات سعدی 

بےوقوف

ایک دوست نے دوسرے دوست سے پوچھا تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ جو کلاس میں نیا  طالب علم آیا ہے ، وہ بےوقوف ہے؟ دوسرے دوست نے سادگی سے جواب دیا، "جب استاد نے پڑھانے کے بعد بورڈ پر لکھا ہوا مٹا دیا تو اس نے بھی اپنی کاپی پر لکھا ہوا سب مٹا دیا۔"

بد نصیبی

اب  اس  سے  بڑھ  کے  ہوکوئ  بد نصیبی کیا کہ تیرے شہر کے لوگوں نے آنسو نہیں دیکھے

we have grown up

Luck

Death - as told by Ashfaque Ahmed

بچے - پھولوں کی طرح

دوسروں کے بچے تب ہی زیادہ پیارے لگتے ہیں ، جب اپنا کو‏ئ بچہ نہ ہو۔ بچے بہرصورت پیارے لگتے ہیں پھولوں کی طرح