وہ بیٹیاں کبھی سسرال میں سر اٹھا کر نہیں جی سکتیں ، جن کے گھر سے کبھی عیدی نہ آۓ ،
وہ بیٹیاں کبھی دل سے خوش نہیں ہوسکتیں جن کے گھر والے کبھی ... ان کو فون نہ کریں
وہ بیٹیاں عزت کی مستحق کیسے ہو سکتی ہیں جن کے گھر والے ... انہیں جیتے جی بھول جائیں ،
سر پہ سائبان نہ ہو تو دھوپ تو جلاتی ہے ناں !!!
کہاں ، کہاں ، کیسی کیسی حسرتیں جمع ہوجاتی ہیں ،
بین کرتی ، شور مچاتی ،
کوئ اونچا بولے تو دل سہم جاتا ہے ،
کوئ زور سے پکارے تو دل دھڑک جاتا ہے ،
کوئ ذیادتی کرے تو سہنا پڑتی ہے ،
کیونکہ وہ کاندھا کہاں ہے جس پر سر رکھ کر چیخ چیخ کر رویا جاۓ ،
بہت سے آنسو ، سارے ہی آنسو
اور اندر ہی اندر قطرہ قطرہ گرتے آنسو ،
دل کو زنگ لگا دیتے ہیں
کوئ مہربان آغوش وا نہیں ہوتی ۔ " —
Comments
Post a Comment