Skip to main content

ہارون الرشید مع وزیر کے جنگل کی سیر کو چلے


18 Feb 2015
ایک دفعہ ہارون الرشید مع وزیر کے جنگل کی سیر کو چلے‘ ایک بوڑھے کو دیکھا کہ باغ میں گٹھلیاں بورہا ہے۔ خلیفہ نے وزیر سے کہا کہ اس سے پوچھو کیا بورہا ہے۔ جب وزیر نے پوچھا تو اس نے کہا کہ کھجور کی گٹھلیاں بورہا ہوں‘ خلیفہ نے پوچھا کہ یہ کتنے برس میں پھل لے آئیں گے۔ بوڑھے نے کہا کہ بیس پچیس سال کے بعد۔ خلیفہ ہنسا کہ بوڑھے میاں کے پیر قبر میں لٹک رہے ہیں اور بیس پچیس سال آئندہ کا سامان کررہے ہیں۔ وزیر نے یہ بات بوڑھے سے کہی تو وہ کہنے لگا کہ اگر سب باغ لگانے والے یہی سوچا کرتے جو تم سوچتے ہو تو آج تم کو ایک کھجور بھی نصیب نہ ہوتی۔ میاں! دنیا کا کام یوں ہی چلتا ہے کہ کوئی لگاتا ہے‘ کوئی کھاتا ہے۔ خلیفہ نے یہ معقول جواب سن کر کہا نَعَم”بے شک صحیح ہے“ اور ہارون رشید کا یہ قاعدہ تھا کہ جس شخص کی بات پر نَعَم کہہ دیں اس کو ایک ہزار دینار دئیے جائیں۔ چنانچہ وزیر نے اس وقت ایک ہزار دینار کا توڑا اس کے حوالے کیا۔ اس کے بعد دونوں آگے چلنے لگے۔ تو بوڑھے نے کہا کہ میری ایک بات سنتے جائو وزیر نے کہا کہو کیا بات ہے؟ بوڑھے نے کہا کہ کسی کا بیج تو بیس پچیس سال میں پھل لاتا ہے لیکن میری بیج نے ایک ہی ساعت میں پھل لے کے آیا۔ خلیفہ نے پھر کہا نَعَم ۔ وزیر نے ایک ہزار دینار کا دوسرا توڑا اس کے حوالے کیا۔ پھر آگے چلنے لگے تو بوڑھے نے کہا کہ چلتے چلتے میری ایک اور بات سنیے اور وہ بات یہ ہے کہ کسی کا بیج تو سال میں ایک مرتبہ پھل لاتا ہے اور میرا بیج تو ایک ہی ساعت میں دو مرتبہ پھل لے آیا۔ خلیفہ نے خوش ہوکر پھر کہا نَعَم وزیر نے ایک ہزار دینار کا تیسرا توڑا بوڑھے میاں کو حوالے کیا۔ وزیر نے بادشاہ سے عرض کیا کہ بادشاہ سلامت! ہمیں یہاں سے اب جلدی جانا چاہیے کیونکہ ہم نے اس بوڑھے کو بے وقوف سمجھا تھا لیکن وہ بہت عقلمند نکلا۔ باتوں باتوں میں ہم کو لوٹ لے گا۔

Comments

Popular posts from this blog

نہ حریف جاں نہ شریک غم شب انتظار کوئی تو ہو

نہ حریف جاں نہ شریک غم شب انتظار کوئی تو ہو کسے بزم شوق میں لائیں ہم دل بے قرار کوئی تو ہو کسے زندگی ہے عزیز اب، کسے آرزوئے شب طرب مگر اے نگار وفا طلب ترا اعتبار کوئی تو ہو کہیں تار دامن گل ملے تو یہ مان لیں کہ چمن کھلے کہ نشان فصل بہار کا سر شاخسار کوئی تو ہو یہ اداس اداس سے بام و در یہ اجاڑ اجاڑ سی رہگزر چلو ہم نہیں نہ سہی مگر سر کوئے یار کوئی تو ہو یہ سکون جاں کی گھڑی ڈھلے تو چراغ دل ہی نہ بجھ چلے وہ بلا سے ہو غم عشق یا غم روزگار کوئی تو ہو سر مقتل شب آرزو رہے کچھ تو عشق کی آبرو جو نہیں عدد تو فراز تو کہ نصیب دار کوئی تو ہو   احمد فراز 

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بینک اکاونٹ

27 Jan 2014 حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بینک اکاونٹ کیا آپ کو معلوم ہے کہ سعودی عرب کے ایک بینک میں خلیفہء سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آج بھی کرنٹ اکاونٹ ہے۔یہ جان کر آپ کو حیرت ہو گی کہ مدینہ منورہ کی میونسپلٹی میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر باقاعدہ جائیداد رجسٹرڈ ہے ۔آج بھی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر بجلی اور پانی کا بل آتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ مسجد نبوی کے پاس ایک عالی شان رہائشی ہوٹل زیر تعمیر جس کا نام عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوٹل ہے ؟؟ تفصیل جاننا چاہیں گے ؟؟ یہ وہ عظیم صدقہ جاریہ ہے جو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صدق نیت کا نتیجہ ہے۔ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو وھاں پینے کے صاف پانی کی بڑی قلت تھی۔ ایک یہودی کا کنواں تھا جو مسلمانوں کو پانی مہنگے داموں فروخت کرتا تھا۔ اس کنویں کا نام "بئر رومہ" یعنی رومہ کنواں تھا۔۔ مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی اور اپنی پریشانی سے آگاہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " کون ہے ج