مولانا رومی رحمتہ اللّہ علیہ فرماتے ہیں...
حضرت موسیٰ علیہ السّلام بعثت سے قبل حضرت شعیب علیہ السّلام کی بکریاں چراتے تھے... اور ایک دن آپ علیہ السّلام حسبِ معمول بکریاں چرا رہے تھے کہ ایک بکری ریوڑ سے جُدا ہو گئی۔
.
آپ علیہ السّلام اس کی تلاش میں جنگل میں چلے گئے اور بکری کو تلاش کرتے کرتے آپ علیہ السّلام کے پاؤں مبارک زخمی ہو گئے جب وہ بکری تھک ہار کر رُک گئی تو آپ علیہ السّلام نے اسے پکڑا اور اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔
.
حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی جگہ کوئی دوسرا چرواہا ہوتا تو وہ یقیناً بکری کو مارنے لگتا کہ اس نے اسے زخمی کر دیا۔
مگر آپ علیہ السّلام اسے پیار کرتے جاتے اور فرماتے جاتے
اے بکری مجھ سے کیا غلطی ہو گئی کہ تُو مُجھ سے یوں بھاگی...؟
اگر تُو مُجھ سے ناراض تھی تو پھر تُو خود کو کیوں پریشان کرتی ہے...؟
تُو نے میری حالت پر رحم نہیں کِیا تو اپنی حالت پر تو رحم کرتی۔
.
اللّہ ربّ العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی اِس شفقت پر ملائکہ سے فرمایا...
نبوّت کے حقدار یہ لوگ ہیں اور قوم کا غم خوار وہ ہے جو تکلیف ملنے پر بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔
.
حضور نبی کریم صلی اللّہ علیہ وسلم کا فرمان ہے...
قوم کا سردار ہی ہو سکتا ہے جس کی عادات نیک ہوں اور وہ خود کو قوم کا خادم تصوّر کرے۔
.
کوئی نبی ایسا نہیں جس نے بچپن میں یا جوانی میں بکریاں نہ چرائی ہوں اور بکریاں چرانا انبیاء کرام علیہم السّلام کا امتحان ہے اور اس سے ان کے اندر صبر اور وقار جیسے اوصاف نمایاں ہوتے ہیں۔
منصبِ نبوّت کے لیے لازم ہے کہ صبر اور تحمّل کی عادات نبی میں پائی جائیں۔
.
اِس حکایت کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اللّہ ربّ العزت نے انبیاء کرام علیہم السّلام سے ابتداء میں بکریاں چروائیں تاکہ ان میں چرواہے کی مانند جس طرح وہ اپنے ریوڑ کو یکجا رکھتا ہے وہ قوم کو یکجا رکھیں اور جس طرح چرواہا ریوڑ کو یکجا رکھنے کے لیے تکلیف برداشت کرتا اور صبر سے کام لیتا ہے...
نبی بھی قوم کو یکجا کرنے کے لیے جس تکلیف سے گزرتے ہیں وہ بھی صبر و تحمّل سے کام لیں...
.
اور کسی بھی رہبر کے لیے ان خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔
.
حکایتِ رومی رحمتہ اللّہ علیہ صفحہ 56,57
Comments
Post a Comment