اماں کا چالیسواں ہوگیا۔چالیسویں کے بعد اماں کے کمرے کو چھیڑا گیا تو ایک بکس پر سب کی آنکھیں ٹک کر رہ گئیں۔ عنایت بھائی نے صفیہ بھابھی کے کہنے پر بکسے کا تالا توڑا اور صفیہ بھابھی کا منہ بن گیا۔ " یہ بھی کوئی بات ہوئی۔۔۔۔۔۔ اتنا بڑا دھوکا۔۔۔ " میں نے تیز نظروں سے انھیں گھورا اور نورالعین بھابھی، شفاعت بھائی کے ساتھ زمین پہ بیٹھ گئیں۔۔۔ شفاعت بھائی چیزیں نکالتے جاتے اور روئے جاتے۔
میرے کھلونے،عنایت بھائی کا پریپ کا بہترین نمبروں سے پاس ہونے کا رزلٹ کارڈ، اجمل بھیا کے اسکول میں ایوارڈ لینے کی تصویر،سلمٰی آپا کی ننھی سی فراک، عائشہ باجی کی چھوٹی سی جوتی، جسے پہن کر وہ پہلا قدم اٹھانے کے قابل ہوئی اور سب سے آخر میں سلمٰی آپا کا تازہ دکھ، ان کی بیوگی کا سفید دوپٹا۔۔۔
بکس خالی ہوگیا اور شفاعت بھیا کے مجسمے میں پہلی بار تحریک ہوئی۔ وہ کچھ نہیں بولے۔ بس روئے جا رہے تھے۔۔
" میرے لیے کچھ نہیں، میرا کچھ بھی نہیں۔۔۔"
سعدیہ عزیز آفریدی کے ناولٹ" اماں کا شفو" سے اقتباس
Comments
Post a Comment