مجید امجد نے آج سے تقریباً پچاس سال قبل یہ مشہور زمانہ نظم لکھی تھی۔ جس کا بھونڈا چربہ وصی شاہ نے "کاش میں تیرے حسیں ہاتھ کا کنگن ہوتا" کے عنوان سے تیار کیا ہے۔
فرق محسوس کیجیے۔
کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا
رات کو بے خبری میں جو مچل جاتا میں
تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں
صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول
میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول
تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں
اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ میں
جونہی کرتیں تری نرم انگلیاں محسوس مجھے
ملتا اس گوش کا پھر گوشہ مانوس مجھے
کان سے تو مجھے ہر گز نہ اتارا کرتی
تو کبھی میری جدائی نہ گوارا کرتی
یوں تری قربت رنگیں کے نشے میں مدہوش
عمر بھر رہتا مری جاں میں ترا حلقہ بگوش
کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا
کلام: مجید امجد
Comments
Post a Comment